Add To collaction

لیکھنی ناول-17-Oct-2023

وہ ہی کہانی پھر سے از قلم ہاشمی ہاشمی قسط نمبر3

ہیلو بلال کہاں ہو جلدی سے گھر او مجھے کچھ بات کرنی ہے وارث نے بغیر بلال کی بات سننے کال کاٹ دی کچھ وقت بعد بلال وارث کے روم میں ایا کیا ہوا شاہ بلال نے کہا شاہ اٹھا کر روم کا درواذ بند کیا اور بلال کی طرف ایا بلال پلین چینج کر دیا ہے میں نے وارث نے کہا کیوں بلال نے پوچھا اس لڑکی کی وجہ سے وہ ضدی ہے اور پھر وارث نے پورا پلین بتایا بلال اس کی بات سن کر شاک سا اس کو دیکھ رہا تھا تو پاگل ہے یہ سب کرے گا کیسی لڑکی کے ساتھ بلال کو صدمہ ہوا تھا ہاں اگر وہ ضدی سے تو میں اس سے زیادہ ضدی ہوں شاہ تو غصہ میں ہے ہم کوئی اور حل نکالتے ہے بلال میں اور تو جانتے ہیں اس کا اور کوئی حل نہیں ہے شاہ گھر میں کیسی کو پتا چلا تو بلال نے ایک کمزور سی کوشش کی اس کی بات پر شاہ نے اس کو گھورا تو کیا چاہتا ہے جو روذی کے حال ہوا وہ اس کا بھی ہو اس کی بات پر بلال اور پریشان ہوا نہیں میں ایسا نہیں چاہتا ہو چلو پھر کام پر لگو وارث نے ابھی سکون سے کہا اس کا سکون بلال کو ٹھکا لیکن اور روم سے چلا گیا سوری بلال ابھی تمہیں کچھ بھی بتا نہیں سکتا وارث نے سوچا آج پہلی بارا وارث نے بلال سے کچھ چھپیا تھا وہ بھی ایک لڑکی کی وجہ سے


نور گھر سے باہر نکالی اور آج وین والا نہیں آیا تھا اس نے سوچتا کہ خود ہی چلی جاو سو وہ سڑک پر کھڑی بس کا انتظارا کر رہی تھی اچانک ایک وین اس کے پاس اکر رکی ود لڑکے اس میں سے باہر ائے نور کو زبردستی وین میں بیٹھیا اور اس کو بے ہوش کیا


نور کی آنکھ کھولی تو خود کو ایک کمرے میں پایا یہ کمرا خوبصوت تھا اس میں ایک بڑا بیڈ ایک سائیڈ پر صوفہ اور دیوار پر LCD موجود تھی نور کو سب یاد ایا اللہ مجھے کیسی نے اغوہ کیا ہے نور نے لیٹے ہوئے سوچ اس ہی وقت روم کا درواذ کھولا اور ایک وجود روم میں ایا اس کو نور پہچان گئی اور اٹھا کر بیٹھ گئی آپ نے مجھے اغوہ کیا ہے مسڑ سیئنر نور نے اپنے سنیجدہ لہجہ میں پوچھا ہاں شاہ نے ایک الفاظ میں جواب دیا نور اٹھا کر اس کے پاس ائی کیا چاہتا ہے آپ نور نے پوچھا میں نے کہا تھا کہ سر توحید سے دور رھوں لیکن تم تو اس سے شادی کرنے لگئی ہو شاہ کہتے ہوا صوفہ پر بیٹھ گیا شادی نہیں میں. تو منگنی کرنے لگئی تھی لیکن اب میں نے سوچا ہے سر سے شادی کرو گئی نور نے اپنے سنیجدہ لہجہ میں کہا اس کے لہجہ اور اس کی بات پر شاہ کو غصہ ایا وہ اس کو ڈدرنا چاھتا تھا میں کیسا بھول گیا یہ لڑکی نارمل لڑکیوں کی طرح نہیں ہے شاہ نے سوچا ٹھیک ہے لیکن میں ایسا نہیں ہونے دو گا تمہیں ابھی اس ہی وقت مجھے سے نکاح کرنا ہو گا اس کی بات پر نور مسکرائ میں مر کے بھی ایسا کچھ نہیں کرو گئی ٹھیک ہے مجھے تمہاری موت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن تمہارے باپ کی موت سے ضرور شاہ نے سنجیدر لہجہ میں کہا اور یمورٹ سے LCD اون کی نور نے دیکھا کے اس کے بابا ایک کرسی میں بے ہوش بیٹھ ہے اور وہ چلی ہوئی اس کے پاس ائی ایسا کیوں کر رہے ہے آپ نور نے پوچھا میری مرضی آب مجھے سے نکاح کرو یا اپنے بابا کی موت دیکھوں فصیلہ تمہارا ہے کچھ وقت دیتا ہو تمہیں شاہ نے. کہا اور روم سے باہر جانے لگا تو کو ٹھیک ہے میں آپ سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہو اور میں ایک رات بھی آپ کے ساتھ گزراو گئی لیکن صبح آپ مجھے طلاق دے دینا نور نے کہا نور کو لگا کہ وہ بس اس کی جسم کو حاصل کرنا چاہتا ہے اس کی بات سن کر شاہ غصہ. میں ایا لیکن ضبط کر گیا تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں حاصل کرنا چاہتا ہو یا تمہاری خوبصوتی پر مرتا ہو تم بس میری ضدی ہو اور کچھ نہیں میں تمہاری اکڑ توڑنا چاھتا ہو اس کی بات سن کر نور کے چہرہ پر کچھ سکون ائے لیکن میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو نور نے آرام سے کہا اس کو یقین تھا اب وہ اس سے نکاح نہیں کرے گا اس کی بات سن کر شاہ غصہ سے روم سے باہر چلا گیا اگر یہاں رکتا تو نور کو کچھ غلط کہ جاتا جو وہ کہنا نہیں چاہتا تھا


کچھ وقت بعد وہ روم میں واپس ایا اور نکاح نامہ پر نور کے سائین کروے اور واپس چلا گیا مسٹر سنئیر یہ نکاح تو ہو گیا ہے لیکن آپ سے ایک بات کہنے چاہتی ہو نور نے شاہ کو دیکھا کر کہا جو ابھی روم میں ایا تھا بولو شاہ نے بیزے سے کہا میں بس آپ سے ضدی کر کے سر سے منگنی کرنے والی تھی اور شادی تو میں کبھی نہیں کرتی ان سے بلکہ کیسی سے بھی نہیں نور نے سنجیدر لہجہ میں کہا کیا شاہ کو اس کی بات پر شاک لگا وہ جانتا تھا کہ نور ضدی سے شادی کر رہی تھی اس کو اس بات کی امید نہیں تھی کہ وہ کیسی سے شادی نہیں کرنا چاہتی جی میرے بابا کہاں ہے نور نے پوچھا وہ اپنے گھر پر موجود ہے شاہ نے کہا شکریہ نور بولی شاہ اس کی بات پر حیران ہوا کیسا بات کا شاہ نے پوچھا مجھے شادی جیس راشتہ سے بچنے کے لیے کیونکہ مجھے یقین ہے نہ آپ مجھے رخصتی کا کہے گئے اور نہ مجھے طلاق دے گئے اور میں رہی چاہتی تھی آپ نے ضدی میں میرا وہ کام کیا ہے وہ میں اپنی زندگی سے چاہتی تھی شاہ بے یقین سا اس کی بات سن رہا تھا اور پھر بڑابڑا (میں کیسا بھول گیا یہ نارمل لڑکیوں جیسی نہیں ہے ) تم بہت عجیب ہو نور شاہ نے کہا اس کی بات پر نور مسکرائ جی بلکل اب مجھے گھر جانا ہے ھاں او شاہ نے کہا


شاہ گاڑھی چلا رہا تھا اور نور پچلی سیٹ پر بیٹھی تھی شاہ شسشہ سے اس کو دیکھا رہا تھا نور کے چہرہ پر سکون تھا کوئی اتنا سب ہونے کے بعد بھی کیسے پر سکون ہو سکتا ہے شاہ نے سوچا گاڑھی میں راحت فتح کا گانا چل رہا تھا
کچھ دیر تک گاڑھی نور کی بستی کے پاس روکی اور نور اپنے گھر کی طرف چلی گئی


بھائ مبادک ہو نکاح کی بلال نے شاہ سے کہا جو ابھی گھر ایا تھا بلال اس کے چہرہ پر پریشانی دیکھی پھر بولا یار میں نے سننا تھا کہ شادی شدہ افر کا خوش سے کو راشتہ نہیں ہوتا آج دیکھا بھی لیے ہے بلال نے شرارت سے کہا بکوس نہیں کر شاہ نے کہا بھابھی کا غصہ مجھے پر اتارا رہا ہے بلال نے پھر سے اس کو نتگ کرنے کے لیے کہا شاہ نے کوئی جواب نہیں. دیا تو اب بلال بھی سنجیدر ہو گیا کیا ہوا بھائ شاہ نے اس کو نور کی بات بتائی بلال اس کی بات پر حیران ہوا یار آج تک میں نے نور کو نہیں دیکھا کوئی لڑکی اس طرح کی بھی ہو سکتی ہے مجھے یقین نہیں ہوتا یہی میں سوچتا ہو بہت عجیب ہے یار میں نے اس کو غواہ کیا اور کے بابا کو بھی نہ تو وہ روئی نہ ہی مجھے سے ڈدری اور نہ ہی مجھے سے کوئی فردیاہ کی شاہ نے کہا اب مجھے بھی بھابھی سے ملنے کا تجسس ہو رہا ہے بلال نے کہا بلال چل میرے ساتھ وارث نے کہا اور اپنے پاپا کے روم میں ایا


کچھ دیر تک وارث نے سب کو روم میں اکھٹا کیا مجھے آپ سب سے ضروری بات کرنی ہے وارث نے کہا کہوں شاہ احد صاحب بولے آپ سب کو ڈول یاد ہے شاہ نے سوال کیا اس کی بات پر سب اداس ہو گیا مجھے ڈول مل گئی ہے شاہ نے سب کے سر پر دمھاکہ کیا حریم وارث کے پاس آئ شاہ کیا کہا تم نے اس نے اپنی بھگئی آواز میں کہا چھوٹی ماں پلیز رورے نہیں آپ وارث تڑث کے بولا کہاں ہے شاہ میری بچی احمد نے کہا چھوٹے پاپا وہ اب میری بیوی ہے وارث نے ان کو ایک اور شاک دی یا میں سب بتاتا ہو آپ لوگوں کو نور کو دیکھا کر ہی مجھے پتا چل گیا تھا کہ وہ میری کزن ہے کیوں کہ اس کی شکل چھوٹی ماں سے ملتی تھی لیکن مجھے صرف شک تھا پھر میں نے پتا کرو وہ عبداللہ مامی شخص کے پاس رہتی ہے سر عبداللہ کو اس رات کوڑا کے ڈبہ میں ملی تھی پھر میں نے اس کا ڈی این آے کا سٹ کرو اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ڈول ہے لیکن تب تک توحید اس کے پیچھے پڑگیا تھا اس لیے میں نے اس کو اغوہ کرو اور اس سے نکاح کیا اگر میں ایسا نہیں کرتا تو اس کی جان کو خطرہ تھا اس کی بات سن کر سب پریشان ہو کہاں ہے میری ڈول اس کو تم گھر کیوں نہیں لاے حریم نے کہا چھوٹی ماں آپ نے مجھے معاف کر دیا شاہ نے پوچھا میری جان مجھے تم پر فخر ہے تم نے میری ڈول کو بچیا ہے حریم نے کہا ھاں شاہ تم نے اچھا کیا ہے اب احد صاحب بولے چھوٹی ماں آپ کی بیٹی بہت ضدی اور غصہ والی بھی وہ مجھے سے ضد کر کے اس توحید سے شادی کرنے والی تھی شاہ نے بتایا ضدی اور غصہ والی تو ہو گئی اپنے بابا پر گئی ہو گئی حریم تلخ بولی اور کا لہجہ سب نے محصوص کیا چھوٹی ماں وہ ہم سب سے ناراض ہے اگر اس کو پتا چل کے میں اس کا کزن ہو تو وہ ہم سب سے دور چلی جائے گئی وارث نے بتائے اس کی بات سن کر سب پریشان ہو گئے اس لیے کچھ وقت کا انتظارا کرنا ہو گا جب تک یہ مشین مکمل نہیں ہوتا وارث نے کہا بیٹا میں نے بیس سال انتظارا کیا ہے کچھ ماہ اور سہی حریم نے کہا شکریہ چھوٹی ماں وارث نے ان کے ماتھے پر پیار کیا سب خوش تھے لیکن ایک شخص شاہ کو اگنور کرتا ہوا اپنے روم میں چلا گیا اور وہ تھا بلال شاہ کو برا لگا اب بلال کو ماننا تھا


نور گھر ائی تو بھاگ کر اپنے بابا کے سینے سے لگئی بابا آپ ٹھیک ہو نور نے پریشان ہو کر پوچھا عبداللہ صاحب اس کی حرکت پر پریشان ہو جی بابا کا بیٹا بابا ٹھیک ہے آج میرا بچا جلدی اگئے عبداللہ صاحب نے اس کو خود سے الگ کرنے کی کوشسش کی لیکن نور نہیں ہوئی بابا آپ کہاں تھے نور نے پوچھا میں تو کام پر تھا کیوں کیا ہوا نور بچے کوئی پریشانی کی بات ہے اس بات پر نور ان سے الگ ہوئی بابا آپ کو پتا ہے میں آج ڈدر گئی تھی نور نے پیار بھرئ نظرو سے عبداللہ صاحب کو دیکھا کیوں میری بیٹی تو کیسی سے ڈدرتی نہیں ہے انہوں نے پیار کرتے ہوے کہا نہیں بابا میں ڈدرتی ہو آپ کو کھو دینے سے نور نے کہا اور پھر سے ان کے سینے لگ گئی میرا بچا کیا ہو ہے کیوں اپنے بابا کو پریشان کررہی ہو اس کی باتوں سے اب وہ پریشان ہو گئے تھے بابا آپ کو پتا ہے نا کہ میں نے آج تک آپ سے جھوٹ نہیں بولا آج بھی نہیں بولو گئی لیکن مجھے کچھ وقت دے سچ بتانے کے لیے نور افسوس سے بولی نور بچے کیا بات ہے یونی میں کچھ ہوا ہے ان نے پوچھا بابا پلیز ابھی نہیں نور سے کہا کچھ وقت وہ خاموش رہے پھر بولے ٹھیک ہے میرے بچے بابا انتظارا کرے گئے میری بیٹی مجھے کب پریشانی بتائے گئی شکریہ بابا آپ کو پتا ہے آپ دنیا کے سب سے اچھے بابا ہے نور نے کہا اس کی بات پر وہ مسکرائے چلو کچھ وقت آرام کر لو پھر دونوں مل کر بریانی بناے گئے اس پر مسکرائ جی بابا اور اپنے روم میں چلی گئی اللہ میری بچی کی پریشانی دور فرما انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا کر کہا نور اپنے روم میں آئ یہ میں نے کیا کیا اگر بابا کو پتا چلا تو کیا ہو گا یا اللہ میری مدر فرما مجھے صبر دے آمین


وارث بلال کے روم میں ایا بلال میرے بھائی ناراض ہے مجھے سے کیا بلال جو اپنا غصہ کنٹرول کرنے کی کوشسش کر رہا تھا اس کی بات سن کر اور آیا اس وقت وہ وارث سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے چپ کر کے روم سے جانے. لگا تو وارث اس کے راستہ میں دیوار بن کر کھڑا ہو گیا بلال پلیز میری بات تو سن وارث نے کہا اس کی بات اور حرکت پر وہ پہلے ضبط کیے ہو تھا ایک مکار وارث کے منہ پر مارا سالے تم نے میری ڈول کو مجھے سے اغوہ کرویا اور اس سے زبردستی نکاح کیا یہ تو نے اچھا نہیں کیا شاہ جتنے غصہ سے بلال نے بات شروع کی آخر میں انتا ہی بے بس ہوا وارث کو پتا تھا کہ وہ ناراض ہو گا لیکن اس طرح ری اکٹ کرے گا اس کو اندزہ نہیں تھا بلال پلیز ناراض نہیں ہو مجھے خود دو دن پہلے پتا چلا ہے کہ وہ ڈول ہے میں پھر اس کو محفوظ کرنا چاہتا تھا شاہ مجھے ڈول سے ملنا ہے بلال نے کہا بلال میرے پیارے بھائ ایسا ممکن نہیں ہے تو جانتا ہے نا شاہ مجھے نہیں پتا تو جانتا ہے نا میں ڈول سے کتنی محبت کرتا ہوں بلال نے کہا اور ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا اس کی تڑپ پر شاہ نے جلدی سے اس کو گلے لگیا ٹھیک ہے میں کچھ کرتا ہو لیکن تو اس کو بھابھی بولے گا اس کی بات پر بلال مسکرایا ٹھیک ہے شاہ میں خوش ہو میری ڈول کی شادی میرے دوست سے ہوئی ہے اس کی بات پر شاہ نے اس کو گھورا اس لیے تم نے اپنی بہن کے شوہر کو مارا ہے اس کی بات پر بلال نے قہقہا لگایا یار میرے دوست نے حرکت ہی ایسی کی تھی اچھا سالے ابھی توجے بتاتا ہو شاہ نے کہا اور ایک مکار بلال کو مارا دونوں ایک دوسرے کو مارنے میں مصروف تھا کہ حنسں روم میں ایا اور پریشان ہو گیا بھائ کیا ہو آپ لڑ کیوں رہے ہو حنسں نے پوچھا اس کی بات پر دونوں چونکے تم دونوں ایک ساتھ بولے اور پھر ہسنے لگے جبکہ حنسں کو دونوں کی دماغی حالت پر شک ہو بھائ آپ دونوں ٹھیک ہو نا آپ دونوں ہسنے کیوں رہے ہو دونوں مسکرائے اور دونوں نے حنسں کو گلے سے لگیا یار ہم بہت خوش ہیں کیوں بھائ حنسں نے پوچھا کیوں کہ شاہ نے نکاح کر لیا ہے بلال نے شرارت سے کہا کیا اس کی بات پر حنسں کو کرنٹ لگ بھائ حنسں نے صدمہ سے کہا جبکہ شاہ سے بلال کو آنکھیں دیکھائی بھائ میں نہیں بولتا آپ سے حنسں نے. کہا اور روم سے چلا گیا یار یہ کیا کیا ہے تم نے حنسں ناراض ہو گیا ہے مجھے سے شاہ نے کہا اچھا ہوا تمہیں کس نے کہا تھا اس طرح نکاح کرو بلال نے کہا اور روم سے بھاگ گیا کیونکہ اب بلال کو پتا تھا شاہ اس کو نہیں چھورنے والا ہے


آج نور یونی ائی خود کافی حد تک نارامل کر لیا تھا کلاس لیے کر باہر ائی اس کی نظر سر توحید پر پرئی وہ اس کی طرف ارہے تھے ھلیو مس نور کیسی ہے آپ کل کیوں نہیں ائی سر نے پوچھا ٹھیک ہو سر نور نے سر جھکائے کر جواب دیا سر مجھے. آپ سے ضروری بات کرنی ہے ہاں کہے سر نے کہا سر مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی نور نے کہا اس کی بات پر توحید کو غصہ ایا وجہ کیا میں جان سکتا ہوں کیوں سر آپ اچھے انسان ہے میں نہیں چاہتی آپ میرے ھاتھوں سے قتل ہو جائے آئند اس لہجے میں مجھے سے بات نہیں کریے گا نور نے سخت لہجہ میں کہا اور وہاں سے چلی گئی دو آنکھیں اس کی بات پر مسکرائ توحید وہ بھی اس کی بات پر غور کرنے لگا


ایک ہفتہ گزرا گیا نور کا یونی میں شاہ سے سامنا بھی ہو جاتا تو دونوں ایک دوسرے کو اگنور کرتا نور آج نہیں جاو بچے آپ کو بخار ہے عبداللہ صاحب نے فکر سے کہا اوووو بابا میں ٹھیک ہو اور ایک ضروری کلاس ہے آج نور نے کہا تیار ہونے لگئی اچھا ٹھیک ہے لیکن پہلے دوائی کھاو پھر جانا عبداللہ صاحب کو دوائی ھاتھ میں لیے کھڑا تھے بولا ٹھیک ہے لائے نور نے کہا اور دوائی کھا لی اور عبداللہ صاحب کو خدا حافظ کہا اور چلی گئی..

   0
0 Comments